قبولیت دعا کے اسباب

کتاب و سنت میں دعا کی قبولیت کے متعدد اسباب بیان کیے گۓ ہیں، ان میں سے نو اسباب درج ذیل ہیں: 

۱: محسنین میں شامل ہونا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَادْعُوْهُ خَوْفًا وَّطَمَعًاۗ اِنَّ رَحْمَتَ اللهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ

( الأعراف: ٥٦ )

ترجمہ:

’’اور اس(اللہ تعالیٰ) سے خوف اور امید کے ساتھ دعا کرو، یقیناََ اللہ تعالیٰ کی رحمت محسنین کے قریب ہے۔

اور محسنین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔ ‘‘ (ملاحظہ ہو: التفسیر القیّم ۲۵۸)

۲: نفلی عبادت کرتے رہنا

امام بخاری نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا، کہ

رسول اللہﷺ نے فرمایا:

’’اِنَّ اللہ قال: ’’مَن عَادَ لِي وَلِیّاََ فَقَدْ آذَنْتُہُ بِالْحَرْب، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَّي عَبْدِیْ بِشَیءِِ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُہُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ اِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى اُحِبَّهُ، فَاِذَا اَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهٖ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهٖ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا وَإِنْ سَأَلْنِی لَأُ عْطِیَنَّہُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِيْ لَأُعِیْزَنَّہُ ‘‘ ۔

الحدیث(صحیح البخاری ۱۱/ ۳۴۰۳۴۱)

ترجمہ:

 یقیناََ اللہ تعالٰی نے فرمایا: ’’جس نے میرے میرے کسی دوست سے دشمنی کی،تو میری طرف سے اس کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اور میرا بندہ میرے مقرر کردہ فرائض سے زیادہ کسی پسندیدہ چیز سے میرے قریب نہیں ہوتا، اور میرا بندہ نفلی عبادت کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں، اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو اُس کا کان بن جاتا ہوں، جس کے ساتھ وہ سنتا ہے۔ اور اُس کی آنکھ بن جاتا ہوں، جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے اور اُس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے، اُس کا پاؤں بن جاتا ہوں، جس کے ساتھ وہ چلتا ہے اور اگر وہ مُجھ سے سوال کرے گا، تو یقیناََ میں اُس کو ضرور دوں گا، اگر وہ مُجھ سے پناہ طلب کرے گا، تو یقیناََ میں اُس کو ضرور پناہ دوں گا ‘‘

۳: خوشحالی میں دعا زیادہ کرنا

امام ترمذی اور حاکم نے حضرت ابوهریره سے روایت نقل کی ھے، کہ انہوں نے کہا، کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: 

’’مَنْ سَرَؔہٗ أَنْ یَسْتَجِیْبَ اللہُ لَہُ عِنْدَ الْشَدَائِدِ وَالْکَرْبِ فَلْیُکْثِرِ الدُؔعَاءَ فِي الرَؔخَاءِ۔‘‘

(صحیح سنن الترمذی ۱۴۰/۳، والمستدرک علی الصحیحین ۵۴۴/۱، الفاظ حدیث صحیح سنن الترمذی کے ہیں)

ترجمہ: 

جو یہ پسند کرے کہ اللہ تعالٰی سختیوں اور پریشانی میں اس کی دادرسی کرے، وہ آسُودگی میں ذیادہ دعا کرے۔

۴: دعا سے پہلے نیک کام کرنا

حضراب ائمہ احمد، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور ابن حبان نے حضرت ابو بکر صدیقؓ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت بیان کی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: 

’’مَا مِنْ عَبْدِ يُذْنِبُ ذَنْبًا ،  ثُمَّ يَتَوَضَّأُ،  ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ،ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللهَ لِذَلِكَ الْذَنْبِ، إِلَّا غَفرَ اللهُ لَهُ۔‘‘

(المسند ۲۲۳/۱، و صحیح سنن ابی داؤد ۲۸۳/۱، و صحیح سنن الترمذی ۱۲۵/۱، و صحیح سنن ابن ماجہ ۲۳۴/۱، والءاحسان فی تقریب صحیح ابنِ حبان ۳۹۰/۳، الفاظ صحیح ابن حبان کے ہیں)

ترجمہ: 

’’بندہ کوئی گناہ نہیں کرتا پھر وضو کرتا ہے، پھر دو رکعتیں پڑھتا ہے، پھر اللہ تعالٰی سے اس گناہ کی معافی طلب کرتا ہے، مگر اللہ تعالٰی اس کو معاف فرما دیتے ہیں۔‘‘

۵: والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا

امام مسلم نے اُسیر بن جابرؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر بن الخطابؓ نے اویس القرنی ؒ سے کہا: 

’’يَأْتِي عَلَيكُم أُوَيسُ بنُ عَامِر مَعَ أَمْدَادٍ مِنْ أَهْلِ اليَمَن مِنْ مُرَادٍ، ثُمَّ مِنْ قَرْنٍ، كَانَ بِهِ بَرَصٌ فَبَرَأَ مِنْه إِلاَّ مَوْضِعَ دِرْهَمٍ، لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِھَا بَرٌّ لَوْ أَقْسَمَ عَلىَ اللهِ لَأَبَرَّهُ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ، فَافْعَلْ۔‘‘

(صحیح مسلم۱۹۶۹/۴با اختصار)

ترجمہ: 

’’تمہارے پاس اعانت کیلیئے والے یمنی لوگوں میں سے قبیلہ قرن کی شاخ مراد کا ایک شخص اویس بن عامر آئے گا۔ اس کت پھلبہری تھی جس سے درہم کے برابر جگہ کے علاوہ اس کا بقیہ حصہ حا ہو گیا تھا، اس کی والدہ ہے جس کے ساتھ وہ حسن سلوک کرتا ہے۔ اگر وہ اللہ تعالٰی پر قسم کھاۓ تو وہ اس کو پورا فرماتے ہیں۔ اگر تمہارے لیے اس مغفرت کی دعا کروانا ممکن ہو، تو ضرور کروانا۔ پھر حضرت عمرؓ نے حضرت اویسؒ سے کہا: ’’میرے لیے گناہوں کی بخشش کی لیے دعا کیجیۓ۔‘‘ اس پر انہیں  نے ان کی لیے دعاۓ مغفرت کی۔

ماں باپ دونوں کے ساتھ حسن سلوک کی وجہ سے دعا کی قبولیت پر غار میں پھنسنے والے تین افراد کا واقعہ دلالت کرتا ہے۔ (ملاحظہ ہو صحیح البخاری ۴۴۹/۴-۴۵۰)

۶: یقین کے ساتھ دعا کرنا

امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابو ہریرہؓ روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے کہا، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں:

’’أَنَّا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَکَرَنِي‘‘

صحیح البخاری ۳۸۴/۱۳، و صحیح مسلم ۲۱۰۲/۴؛ الفاظ حدیث صحیح البخاری کے ہیں

ترجمہ: 

’’میں اپنے بندے کے اپنے بارے میں گمان کے مطابق ہوں (یعنی جیسا میرا بندہ میرے بارے میں گمان کرتا ہے، میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں) اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔‘‘

۷: دعا سے پہلے حمد اور درود شریف

امام ترمذی نے حضرت فضالہ بن عبیدؓ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے، ایک شخص آیا، اور اس نے نماز پڑھی اور کہنے لگا:             

’’اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ‘‘

(صحیح سنن الترمذی ۱۶۳/۳-۱۶۴)

ترجمہ: 

’’اے میرے اللہ مجھے معاف فرما دیجیئے، اور مجھ پر رھم فرمائیے۔‘‘ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’عَجِْلتَ أيُّھَا المُصَلِّي ، إِذَا صَلَّيْتَ فَقَعَدْتَّ فَاحْمَدِ اللّٰهَ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ، وصَلِّ عَليَّ ثُمَّ ادْعُهُ۔‘‘

(صحیح سنن الترمذی ۱۶۳/۳-۱۶۴)

ترجمہ: 

’’اے نمازی! تو نے جلدی کی ہے، جب تم نماز پڑھو اور بیٹھو، تو شان الٰہی کے مطابق ان کی تعریف کرو، پھر ان سے دعا کرو۔‘‘ اس راوی نے بیان کیا کہ اس کے بعد ایک اور شخص نے نماز پڑھی، تو اس نے اللہ تعالٰی نے کی حمد بیان کی اور نبی ﷺ پہ درود پڑھا تو نبی ﷺ نے فرمایا:

’’أيُّھَا المُصَلِّي اُدْعُ تُجَبْ۔‘‘

(صحیح سنن الترمذی ۱۶۳/۳-۱۶۴)

ترجمہ: 

’’اے نمازی دعا کرو، پوری کی جاۓ گی۔‘‘

۸۔ اللہ تعالٰی کے اسم اعظم کے ساتھ دعا کرنا

امام نسائی نے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے کہا، کہ ’’میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور ایک آدمی کھڑا نماز پڑھ رہا تھا ۔ جب وہ رکوع اور سجدہ کر کے تشہد میں بیٹھا، تو اس نے دعا کرتے ہوئے کہا:

’’اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْءَلُکَ بِأَنَّ لَکَ الْحَمْدَ، لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ الْمَنَّانُ، بَدِیعُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ، یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ! یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ! إِنِّی أَسْأَلُکَ۔‘‘

(صحیح سنن النسائی ۲۷۹/۱)

ترجمہ: 

’’اے اللہ یقینناََ میں آپ سے سوال کرتا ہوں، کہ ہر قسم کی تعریف آپ ہی کے لیے ہے۔ نہیں کوئی معبود مگر آپ ہی، بہت زیادہ احسان کرنے والے، آسمانوں اور زمین کو بلا سابقہ نمونے کے بنانے والے، اے بزررگی اور عزت والے! اے ہمیشہ زندہ رہنے والے! اے موجودات کو قائم رکھنے والے، یقیناََ میں آپ سے سوال کرتا ہوں۔‘‘ تو (یہ سن کر) نبی ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا:  

’’تَدْرُوْنَ بِمَا دَعَا؟۔‘‘

(صحیح سنن النسائی ۲۷۹/۱)

ترجمہ: 

’’تمہیں معلوم ہے کہ اس نے (کن) الفاظ کے ساتھ دعا کی ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا کہ اللہ تعالٰی اور اس کے رسول ﷺ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ! لَقَدْ دَعَا اَللّٰہَ بِاسْمِہِ الْعَظِیمِ الَّذِی إِذَا دُعِیَ بِہِ أَجَابَ وَإِذَا سُئِلَ بِہِ أَعْطٰی۔‘‘

(صحیح سنن النسائی ۲۷۹/۱)

ترجمہ: 

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بے شک اس نے اللہ تعالٰی سے اس کے اسم عظیم کے ساتھ دعا کی ہے، کی جب اس کے ساتھ دعا کی جاۓ، تو وہ داد رسی کرتے ہیں، اور اس کے ساتھ سوال کرتے ہیں تو وہ عطافرماتے ہیں۔ ‘‘

۹: تکبیر و تسبیح و تحمید کے بعد دعا کرنا 

حضرت امام ترمذی نے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت نقل کی ہے، کہ ام سلیمؓ  رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور عرض کیا: ’’مجھے ایسے کلمات سکھائیے، جو میں نماز میں کہوں۔‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا:

’’کَبِّرِی اللہ عَشْرًا، وَسَبِّحِیْہِ عَشْرًا، وَاحْمِدِیْہِ عَشْرًا، ثُمَّ سَلِّی مَا شِئتِ، یَقُوْلُ:’’نَعَمْ نَعَمْ۔‘‘ 

(صحیح سنن الترمذی ۱۴۹/۱)

ترجمہ: 

’’دس مرتبہ (اللہ اکبر) اور دس مرتبہ (سبحان اللہ) کہو اور دس مرتبہ (الحمد للہ) کہو پھر جو چاہو سوال کرو، وہ یعنی[اللہ تعالٰی] فرماتے ہیں: ’’ہاں، ہاں۔ ‘‘